دبئی میں نوکری نہ ملی تو گونگا بن کے مولوی بن گیا۔ ایک رات عربی عورت میرے پاس ۔۔۔
ایک رات 2 عربی عورتیں آئیں اور بولیں بچہ گھر پر بیمار ہے۔ اس کو دم کرنا ہے
ان عربی عورتوں کے حسن دیکھ کر میں تو دنگ رہ گیا
میں غیر مسلم تھا
میری کہانی کی ابتدا اس وقت ہوئی جب میں نے اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنے کی ٹھانی اور نوکری کی تلاش میں دبئی کا رخ کیا۔ خواب آنکھوں میں اور امید دل میں تھی کہ دبئی کی چمکدار دنیا میں میری بھی کوئی جگہ ہوگی۔ لیکن قسمت نے میرے ساتھ وہ کھیل کھیلا جو شاید میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کئی دنوں کی بھاگ دوڑ کے باوجود مجھے کوئی نوکری نہ ملی، اور میرے پاس پیسوں کی قلت بڑھتی جا رہی تھی۔
ایک دن، بھوک اور بے بسی کے عالم میں، میرے ذہن میں ایک عجیب خیال آیا۔ میں نے سوچا، کیوں نہ میں اپنا مذہب اور پہچان چھپاتے ہوئے ایک مولوی بن جاؤں۔ لوگوں کا بھروسہ جیتنے کے لیے میں نے گونگا بننے کا بہانہ کیا، تاکہ کسی کو مجھ سے سوال کرنے کا موقع نہ ملے۔ میں ایک چھوٹی مسجد میں جا بیٹھا، قرآن کے کچھ الفاظ یاد کر لیے اور لوگوں کے دکھ درد کا دم کرنا شروع کر دیا۔
میری یہ چال کامیاب رہی۔ لوگ میرے دم سے مطمئن ہو کر ہزاروں ریال دے جاتے۔ میں اپنے آپ کو ایک چالاک شخص سمجھنے لگا، اور یہ سب کچھ میرے لیے ایک کھیل بن چکا تھا۔
ایک رات کی ہولناک پیشکش
ایک رات، جب میں مسجد میں بیٹھا تھا، چار عربی عورتیں میرے پاس آئیں۔ ان کی آنکھوں میں پریشانی اور بے بسی تھی، اور ان کا لباس ان کی امارت کی گواہی دے رہا تھا۔ ایک نے اشارے سے بتایا کہ ان کے بچے کی حالت گھر پر بہت خراب ہے اور مجھے ان کے ساتھ چلنا ہوگا تاکہ دم کر سکوں۔ میں نے انکار کرنا چاہا، لیکن ان کے اصرار نے مجھے مجبور کر دیا۔ انہوں نے مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھے اس کام کا بڑا انعام دیں گی۔
میں نے دل میں سوچا کہ یہ تو ایک آسان کام ہے۔ کچھ آیات پڑھوں گا، دم کر کے واپس آ جاؤں گا۔ میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا۔ راستے میں مجھے عجیب سا خوف محسوس ہونے لگا۔ ان عورتوں کی خاموشی اور گاڑی کا سنسان راستوں پر سفر مجھے بے چین کر رہا تھا۔ مگر میں نے خود کو یہ کہہ کر تسلی دی کہ شاید یہ میرے وہم ہوں۔
پراسرار مکان
گاڑی ایک بڑے اور پرانے طرز کے محل نما مکان کے سامنے رکی۔ مکان کے ارد گرد گہرا سکوت تھا، جیسے زندگی کا کوئی وجود نہ ہو۔ میں نے دل مضبوط کیا اور ان عورتوں کے پیچھے چل دیا۔ گھر کے اندر کا ماحول عجیب تھا—دیواروں پر پرانی تصویریں، موٹے پردے، اور روشنی اتنی مدھم کہ ماحول پراسرار لگے۔
مجھے ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں ایک چھوٹا بچہ بے ہوش لیٹا تھا۔ اس کی حالت واقعی خراب لگ رہی تھی، لیکن کمرے کی فضا میں عجیب سی گھٹن تھی۔ عورتوں نے مجھے جلدی دم کرنے کو کہا۔ میں نے اپنی اداکاری جاری رکھی اور دم کرنے لگا۔ مگر جیسے ہی میں نے دم شروع کیا، مجھے محسوس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔
پردہ فاش
اچانک، ایک عورت نے میرے قریب آ کر کہا، “تم گونگے نہیں ہو۔” میں چونک گیا اور میرا دل دھک سے رہ گیا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں چالاکی تھی۔ میں نے انکار کرنا چاہا، لیکن اس نے مجھے ایسی زبان میں کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہیں آئی، اور باقی عورتیں ہنسنے لگیں۔
انہوں نے کہا، “ہم جانتے ہیں تم کون ہو اور تم کیا کر رہے ہو۔ ہمارے گھر آنے والے مہمانوں کو دھوکہ دینا آسان نہیں۔” یہ سنتے ہی میرا دل جیسے دھڑکنا بند ہو گیا۔ میں نے بھاگنے کی کوشش کی، لیکن دروازے بند تھے۔
خوفناک انجام
عورتوں نے مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا اور کہا، “اب تم ہمارے ساتھ رہو گے، اور تمہیں وہی کرنا ہوگا جو ہم کہیں گی۔ ورنہ تمہارا راز سب کے سامنے فاش کر دیں گی۔” میں خود کو بے بس محسوس کرنے لگا۔ وہ رات میری زندگی کی سب سے لمبی رات تھی۔
کیا وہ مجھے زندہ چھوڑیں گی؟ کیا میں وہاں سے نکل پاؤں گا؟ یا میرے گناہوں کا یہی انجام ہوگا؟ یہ سوالات میرے ذہن میں گردش کر رہے تھے، اور میں دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح اس خوفناک خواب سے جاگ جاؤں۔