ملازمہ کی سرگوشی میرے کانوں میں گونج رہی تھی: تمہاری بیٹی زندہ ہے
وہ واقعی زندہ تھی، لیکن اس کی حالت
میرے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔ اتنے میں ملازمہ نے جلدی سے کہا،
ملازمہ کی سرگوشی میرے کانوں میں گونج رہی تھی: “تمہاری بیٹی زندہ ہے۔”
میری دنیا جیسے رک گئی۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے اپنی بیٹی کا کفن ہٹایا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ واقعی زندہ تھی، لیکن اس کی حالت بہت نازک تھی۔ اس کی سانسیں مدھم تھیں، اور وہ اشاروں سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔
“ماں… مجھے بچاؤ…” اس نے دھیرے سے کہا۔
میرے دل میں ایک طوفان برپا تھا۔ اتنے میں ملازمہ نے جلدی سے کہا، “اگر آپ کو اپنی بیٹی کی زندگی عزیز ہے، تو آپ کو فوراً یہاں سے بھاگنا ہوگا۔ یہ لوگ اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔”
میں نے گھبرا کر پوچھا، “کون؟ کیا ہو رہا ہے؟”
ملازمہ نے بتایا کہ میری بیٹی کے شوہر اور اس کے سسرال والے اسے قتل کرنا چاہتے تھے تاکہ اس کی جائیداد ہتھیا سکیں۔ انہوں نے حاملہ ہونے کا بہانہ بنا کر اسے زہر دے دیا تھا۔ لیکن زہر کا اثر مکمل ہونے سے پہلے ملازمہ نے حقیقت جان لی اور مجھے خبر دی۔
میری بیٹی کی زندگی بچانے کا ایک ہی راستہ تھا: میں خود کو اس کے کفن میں چھپا لوں اور ظاہر کروں کہ مرنے والی میں ہوں۔
میں نے ایک لمحے کا بھی ضائع نہیں کیا۔ اپنی بیٹی کو ایک کونے میں چھپایا، ملازمہ کو اس کی حفاظت کا کہا، اور خود کفن اوڑھ کر میت کی جگہ لیٹ گئی۔ خاندان والے پہلے ہی غم کی اداکاری میں مصروف تھے اور یہ نہ سمجھ سکے کہ میت کے اندر اب میں ہوں۔
سبق:
یہ کہانی ماں کی بے لوث محبت اور قربانی کی ایک دل کو چھو لینے والی مثال ہے۔ ظالموں کے خلاف ہمت اور سچائی کی فتح کا پیغام دیتی ہے۔
انجام:
رات کے وقت، جب سسرال والے میری “میت” کو دفن کرنے کی تیاری کر رہے تھے، ملازمہ نے بیٹی کو لے کر وہاں سے بھاگنے کا انتظام کر دیا۔ میں نے اپنی آخری قربانی دے کر اپنی بیٹی کی زندگی بچائی۔ اگلے دن جب وہ حقیقت جاننے کے قابل ہوئے، تو بیٹی ایک محفوظ جگہ پر پہنچ چکی تھی۔
یہ قربانی اس بات کا ثبوت تھی کہ ایک ماں اپنی اولاد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ میری موت نے نہ صرف میری بیٹی کو زندگی دی بلکہ ظالموں کے مکروہ چہرے بھی بے نقاب کر دیے۔