ٹیلی پوریشن کے ذریعے انسانوں کو غائب کرنے کا کامیاب تجربہ
اب انسان جنات کی طرح غائب ہو سکیں گئے ؟ نا قابل یقین
سائنس ہر دور میں اس جدوجہد میں لگی رہتی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کے لیے ایسے تیز ترین ذرائع بنائے جائیں جو کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فاصلہ طے کر پائیں جس کی مثال کار ٹرین اور ہوائی جہاز وغیرہ ہے لیکن سائنس دانوں نے ایسے جدید اشارت کیے ہیں جن کو سفر کی یہ نئی شکل ہمیں نہ جسمانی طور پر منزل تک پہنچاتی ہے اور نا کسی سواری کے ذریعے
ٹیلی پوریشن کے اس سفر میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ کسی بھی انسان یا چیز کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک کچھ اس طرح منتقل کیا جاتا ہے کہ وہ چیز پہلے مقام سے غائب ہو کر دوسرے مقام پر ظاہر ہوتی ہے اس تھیوری کی بنیاد پر سائنس دانوں کا یہ دعوی ہے کہ مستقبل میں انسانوں کو بھی ٹیلی فوٹیشن کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے گا جس میں سفر خواہ ایک دن کا ہو ایک گھنٹے کا ہو یا ایک سال کا انسان صرف ملک دھپکتے ہی دوسرے مقام تک پہنچ سکے گا ماہرین کی ایک تحقیق کی یہ بھی کہتی ہے کہ خلا میں بہت سارے ورم ہولز موجود ہیں یہ دراصل ایک نا نظر انے والا دروازہ ہے اگر کوئی انسان ان فرم ہولز میں گر جائے تو اس کا واپس انا ناممکن ہے
یہ ورم ہولز انسان کو کائنات کے دوسرے حصے تک پہنچا دیں گے گویا یہ ایک راستے کا کام کریں گے لیکن ان ورم ہولز کے اندر موجود انسان یا کوئی مادہ جھیل پائے گا یا نہیں یہ ہم نہیں جانتے اگر ایسے ورم ہولز کو ہم بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو کائنات کے ایک حصے سے دوسرے حصے یا ایک پلینٹ سے دور دراز موجود دوسرے سیارے پر چاہے وہ صدی ہوں یا اربوں نوری سال کے سفر کے برابر کیوں نہ ہو ہم کچھ ہی سیکنڈ سے پہلے یہ فاصلہ طے کر پائیں گے یہ ناقابل یقین بات تو ہے لیکن اب یہ حقیقت بنتی جا رہی ہے کیونکہ حال ہی میں گوگل کی کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعے سائنس دانوں نے ایک چھوٹا سا بم اور تیار کیا ہے جس میں ایک پارٹیکل کو ڈالا گیا تو پلک چپکتے ہی دوسری جانب سے باہر نکل ایا بہت سے سائنسدانوں نے مخالفت کی کہ ہم اس طرح کا بڑا بمبول کر بھی بنا لگ سکتے لیکن تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہوئی سائنس مستقبل میں داخل کو ممکن بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے
ٹیلی فوٹیشن اور پورٹلز کا یہ تصور صرف سائنٹیفک تھیوریز اور موویز کا ہی حصہ نہیں ہے بلکہ مذہبی اور الہامی کتابوں میں بھی یہ کانسپٹ موجود ہے اور اس کا سب سے زیادہ ذکر اسلام میں ملتا ہے قران مجید کے اندر سورہ معارج میں لفظ المعارج کا ذکر ہے جس کے معنی ایسے راستے کے ہیں جن کا استعمال فرشتے اور روحیں اسمان پر انے جانے کے لیے کرتے ہیں دراصل فرشتے یا کوئی بھی مخلوق اگر اسمان پر جاتی ہے تو یوہی اسمانوں کو پار کرتے ہوئے نہیں نکل جاتی بلکہ مخصوص وزن کے راستے اللہ نے تخلیق کیے ہوئے ہیں جن سے گزر کر ہی دوسرے تیسرے یا چھٹے اسمان تک باندھا جا سکتا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب نمرود نے اگ میں پھینکا یا یوسف علیہ السلام کو جب ان کے بھائیوں نے کنویں میں گرایا تو اس وقت چند لمحوں میں ہی جبرائیل علیہ السلام جو سدرۃ المندہ پر موجود تھے ان کے سامنے ظاہر ہو گئے اور ان نبیوں کی مدد فرمائی ان دونوں واقعات میں ایک چیز یکساں ہے یعنی جبرائیل علیہ السلام کا اسمانوں سے زمین پر ایک سیکنڈدم وقت میں باہر جانا جبرائیل علیہ السلام کے اس تیز رفتاری کی کوئی ایکسپلینیشن نہیں البتہ لاکھوں لائٹ ایئرز کی دوری سے اچانک زمین پر ظاہر ہونے کی ٹیلیپورٹیشن کے ذریعے تشریح کی جا سکتی ہے
اسی طرح جب سلیمان علیہ السلام نے یہ مشرف میں بیٹھ کر اپنے محل میں یہ حکم دیا کہ ملکہ بلقیس کے تخت کو حاضر کیا جائے جو کہ عرب کے بالکل جنوب میں ملک سبا میں بیٹھی تھی تو پلک چپک پہ ہی اپ کے وزیر نے اس تخت کو اپ کے سامنے حاضر کر دیا یہ علم کوئی روحانی علم تھا یا ان ہوٹلز کے ذریعے اس عمل کو انجام دیا گیا جس کا ذکر سورۃ القارج میں موجود ہے
اس موضوع کا سب سے اہم سوال ہے ہوٹلز یعنی دوسرے دنیا کے راستے کھل جانے کے متعلق ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا ایک واقعہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہے جس کے مطابق ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک نماز پڑھائی جس میں اپ نے ایک طویل قیام اور طویل رکوع کیا پھر طویل سلجنا بھی دیا نماز کے دوران صحابہ کرام نے ایک غیر معمولی چیز دیکھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نماز کے دوران اپنا ہاتھ اگے بڑھا رہے تھے اور پھر پیچھے کی جانب کر لیا لہذا نماز کے بعد صحابہ نے اس کی وجہ پوچھی تو
حضور نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھل گیا تھا اور مجھے اس کے انگور دکھائے گئے پہلے ہاتھ بڑھا کر انہیں تمہارے لیے اتارنا چاہا لیکن اچانک میرے سامنے رکاوٹ کر دی گئی اگر میں ان انگوروں کو توڑ لیتا تو تم انہیں ہمیشہ کھاتے اور وہ کبھی ختم نہ ہوتے جنت کا وہ مخصوص دروازہ کیسے مر گیا تھا اور کیا حضور ان ہوٹل سے جنت کے اندر داخل ہو گئے تھے یہ معاملہ شاید جدید سائنس کے انے والی تحقیق ارگن کشف الگ سے ہی ثابت ہو سکتا ہے اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام جب خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے تو سمندر میں مچھلی نے ایک
حضرت موسی علیہ السلام جب خضر علیہ السلام کی تلاش میں نکلے تو سمندر میں مچھلی نے ایک راستہ یا سراخ بنا دیا تھا جس سے موسی علیہ السلام داخل ہو گئے اور دوسری جانب سے نکلے تو حضرت خضر علیہ السلام کو پایا وہ سراخ یا راستہ ہوٹلز ہی الیکشن تھی اور یہ بات عین ممکن ہے کہ موسی علیہ السلام نے خضر علیہ السلام کے ساتھ علم کے لیے جو سفر کیا وہ سفر دوسری ڈائمنشن یا دوسری دنیا میں ہو رہا تھا اور وہ سوراخ اس دنیا میں جانے کا ایک راستہ تھا بس ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ مسیح انجال بھی انہی پورٹلز کے ذریعے اس دنیا میں ظاہر ہوگا
بائبل میں بھی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جیسا کہ یوحنا کی کتاب ایت 25 میں لکھا ہے کہ جب حواری اس سے کہنے لگے کہ ہم نے یسو مسیح کو دیکھا ہے تب اس نے ان سے کہا کہ جب تک میں اس کے ہاتھوں میں کیلوں کے چھید بنا دیکھتا ہوں اور کی لو کے چھیدوں میں اپنی انگلیاں نہ ڈال لوں تب تک میں یقین نہیں کروں گا اٹھ دن بعد اس کے ٹریلے گھر کے اندر تھے اور دروازے بند تھے تب یسو مسیح ظاہر ہوئے اور کہا کہ تمہیں سکون ملے انہوں نے وما سے کہا کہ اپنی انگلی یہاں علاقے میرے ہاتھوں پہ رکھ دو اور یقین کرنے والے بن جاؤ اس واقعے میں اخر کیا ہوا تھا دراصل یہ ٹیلی وڈیشن تھا دروازے بند تھے پھر بھی عیسی علیہ السلام ان کے درمیان ا کر کھڑے ہو گئے جبکہ ان کو اتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا ایسے تیری انبیاء کے واقعات انے مقدس میں بھی موجود ہیں جس میں انہوں نے ایک خاص دروازے سے دوسری دنیا کا سفر کیا تھا دوستو