سہاگ رات کو میں نے کمرے میں قدم رکھا تو اچانک ہی میرے قدم رک گیے ،میری بیگم پہلے ھی ۔۔۔
میری شادی کرنے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ اس وقت بھی میں شازیہ ہی کی تلاش میں تھا۔ شائد شازیہ میرے نصیب میں ہی نہیں تھی لیکن پھر
آدھی رات کی حقیقت
میں اپنی شادی سے بالکل خوش نہیں تھا۔ میرے دل میں ایک عجیب سا بوجھ تھا، جو بڑھتے بڑھتے ایک کانٹے کی طرح چبھنے لگا تھا۔ میری کزن کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا، وہ کسی بھی انسان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ اس کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی، اور یہ حقیقت میرے دل و دماغ پر بادل کی طرح چھائی ہوئی تھی۔ میں نے اس کے ساتھ شادی تو گھر والوں کے اصرار پر کی تھی، لیکن دل کے کسی گوشے میں قبولیت کا شائبہ تک نہ تھا۔
پہلی رات کی خاموشی
سہاگ رات کو میں نے کمرے میں قدم رکھا تو دل عجیب سے جذبات کا شکار تھا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی، بالکل خاموش، جیسے اپنی ہی دنیا میں گم ہو۔ میں نے ایک نظر اس پر ڈالی، لیکن فوراً نفرت سے منہ موڑ لیا۔
“تم جانتی ہو نا، یہ شادی صرف ایک مجبوری ہے؟”
میرے الفاظ پتھر کی طرح اس کے دل پر گرے ہوں گے، مگر وہ کچھ نہ بولی۔
میں نے غصے سے کمبل کھینچا اور کمرے کے دوسرے کونے میں جا کر لیٹ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ واقعات بار بار گھوم رہے تھے جنہوں نے میری زندگی کا رخ بدل دیا تھا۔
آدھی رات کا انکشاف
رات کے کسی پہر میری آنکھ اچانک کھل گئی۔ کمرے میں عجیب سی خاموشی تھی، مگر اس کے باوجود ایک غیر مرئی کشش مجھے بے چین کر رہی تھی۔ میں نے بے دلی سے اپنی آنکھیں کھولیں اور سوئی ہوئی دلہن کی طرف دیکھا۔ اس کی شخصیت میں کچھ ایسا تھا جو مجھے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
وہ ایک خاموش مجسمے کی مانند لگ رہی تھی، لیکن اس کے چہرے پر ایک سکون اور معصومیت تھی جو میرے دل کو چھو گئی۔ اچانک میری نظر اس کے گال پر بہتے آنسو پر پڑی، جو تکیے میں جذب ہو رہا تھا۔ وہ گہری نیند میں تھی، لیکن شاید اس کے دل میں چھپے زخموں کی ٹیسیں اس کے خوابوں کو بھی ستا رہی تھیں۔
میرے دل میں ایک عجیب سا درد جاگا۔ میں نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ اس کی معصومیت، اس کے دکھ، اور اس کی خاموشی نے مجھے جھنجھوڑ دیا۔
“یہ وہی لڑکی ہے جس کے ساتھ زبردستی کی گئی تھی، جسے بے قصور ہونے کے باوجود سزا ملی؟ کیا میرا رویہ اس کے لیے ایک اور عذاب نہیں بن رہا؟”
یہ خیالات میرے دماغ میں ہتھوڑے کی طرح بجنے لگے۔
حقیقت کا سامنا
میں نے خاموشی سے اس کے قریب جا کر بیٹھنے کی ہمت کی۔ اس کی معصومیت کو دیکھ کر میرے دل کی سختی ٹوٹنے لگی۔ میں نے اپنے اندر کے انسان سے سوال کیا،
“کیا یہ لڑکی واقعی اس نفرت کی حقدار ہے؟ یا میں اپنے تعصبات کا شکار ہوں؟”
میں نے آہستہ سے اس کے آنسو پونچھے، اور وہ نیند میں ہی تھوڑا چونک گئی۔ اس کی پلکیں کھلیں، اور اس نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
“کیا میں تمہارے لیے واقعی اتنی بری ہوں؟” اس کی آواز میں درد تھا، مگر وہ مضبوطی کے ساتھ بولی۔
“نہیں…” میرے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
بدلتے جذبات
یہ پہلی رات تھی جب میں نے اپنی نفرت کی دیوار میں دراڑ پڑتے محسوس کی۔ میں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ جو ہوا، وہ اس کی غلطی نہیں تھی۔ وہ صرف ایک معصوم لڑکی تھی جس کے نصیب نے ظلم سہا تھا۔
اس رات، میرے دل میں ایک نیا احساس پیدا ہوا، شاید ایک امید کہ میں اسے اس دکھ سے نکال سکتا ہوں۔ اور یہ سفر وہیں سے شروع ہوا۔
اختتام
اگلی صبح کا سورج ایک نئے آغاز کی نوید لے کر آیا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس لڑکی کو اس کی کھوئی ہوئی خوشیاں واپس دینی ہیں۔ وہ ایک مظلوم تھی، لیکن میں اسے اپنی محبت سے ایک مضبوط عورت بنا سکتا تھا۔ شاید یہ میرا کفارہ تھا، اور شاید یہ میرا نیا نصیب۔