حبشی نا مانا اور مجھے تہہ خانے میں لے گیا

اندر جا کر میرا تو جسم لرز گیا کیونکہ

کیونکہ میں یتیم تھی۔ دبئی جا کر ماموں نے مجھے ایک حبشی کو بیچ دیا۔ وہ خبشی میرے ساتھ نہ کوئی غلط حرکت کرتا اور نہ ہی کوئی کام کرواتا۔
حبشی کے گھر میں بوڑھی ملازمہ روز اشاروں سے کہتی بھاگ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بھی بہت برا ہو گا۔ میں انجان ملک میں کہاں جاتی۔ جب میں نے اس کی بات نہ مانی تو وہ مجھے تہہ خانے میں لے گئی۔ اندر جا کر میرا تو جسم لرز گیا کیونکہ

یہ کہانی جذباتی اور حساس موضوع پر مبنی ہے

تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی، میں نے اپنے گرد اندھیرا محسوس کیا، لیکن جیسے ہی بوڑھی ملازمہ نے ایک چراغ روشن کیا، میری آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ تہہ خانے میں مختلف عورتیں زنجیروں سے جکڑی ہوئی تھیں۔ کچھ کی حالت انتہائی خستہ تھی، اور کچھ کی آنکھوں میں ایک مردہ سی خاموشی۔ وہ سب کسی عذاب میں مبتلا تھیں، اور مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خوف کے سائے اور بھی گہرے ہو گئے۔

بوڑھی عورت نے سرگوشی کی، “یہاں سے نہ نکلی تو تم بھی ان میں شامل ہو جاؤ گی۔ حبشی نہ تم سے کام لیتا ہے، نہ تمہیں آزاد چھوڑتا ہے۔ وہ تمہیں اپنے کھیل کے لیے تیار کر رہا ہے۔”

میری سانس رکنے لگی، اور میری ٹانگیں کانپنے لگیں۔ میں نے پہلی بار اپنی بے بسی کا شدت سے احساس کیا۔ میں نے بوڑھی عورت سے پوچھا، “لیکن میں کہاں جاؤں؟ مجھے یہاں سے کون بچائے گا؟”

بوڑھی عورت نے آہ بھری اور کہا، “اللہ پر بھروسہ رکھو، لیکن اپنے لیے ہمت بھی پیدا کرو۔ میں تمہیں یہاں سے نکلنے کا راستہ دکھاؤں گی، لیکن آگے تمہاری قسمت ہے۔”

اس رات، جب پورا گھر خاموش تھا، بوڑھی عورت نے مجھے تہہ خانے کے ایک پوشیدہ راستے سے باہر نکالا۔ میں اندھیرے میں بھاگتی رہی، اپنے قدموں کی آواز اور پیچھے سے آنے والے ممکنہ خطرے سے ڈرتی رہی۔ آخرکار، میں ایک گلی کے کنارے گر پڑی۔ وہاں سے ایک مہربان آدمی نے مجھے اٹھایا اور پولیس کو خبر دی۔

پولیس نے حبشی کو گرفتار کیا اور اس کے پورے گروہ کو بے نقاب کر دیا۔ وہاں موجود تمام عورتوں کو آزاد کرایا گیا، اور مجھے بحفاظت واپس میرے وطن بھیج دیا گیا۔ لیکن میرے دل پر لگے زخم اتنی آسانی سے بھرنے والے نہیں تھے۔