نوکرانی نے جیسے ہی مالکن کے کمرے میں جھانکا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی

میں جب کمرے میں گیؑی تو میری آنکھوں

ایک عورت کہتی ہے کہ میں بشری انصاری کے بنگلے پر بھیک مانگنے گئی۔
بشری صاحبہ نے مجھے اندر بلایا، مجھے نئے کپڑے دیئے، کھانا کھلایا اور میری خوب خدمت کی۔ پھر وہ مجھ سے بولی کل پھر آنا۔
اب میں روز وہاں جاتی اور مزے کرتی اور بشری بی بی کو دعا دیتی۔ بشریٰ بی بی نے مجھے ایک مخصوص ٹائم دے رکھا تھا کہ بس اسی ٹائم ہی آنا۔
ایک دن میں اس ٹائم سے پہلے چلی گئی تو نوکرانی بولی کہ مالکن کمرے میں ہے۔ کچھ سوچتے ہوئے میں نے کمرے میں جھانکا تو پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔۔۔

میں نے دیکھا کہ بشری بی بی کے کمرے میں ایک چھوٹا سا مندر بنا ہوا تھا، جہاں وہ ایک مورتی کے سامنے بیٹھ کر پوجا کر رہی تھیں۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کیونکہ میں نے ہمیشہ بشری بی بی کو مسلمان سمجھا تھا۔ میں حیران و پریشان وہاں سے واپس آگئی۔

بعد میں، جب میں نے دوبارہ اپنے مخصوص وقت پر بشری بی بی کے گھر جانے کی ہمت کی، تو میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا۔ بشری بی بی نے مجھے بٹھایا اور کہا، “بیٹی، ہر انسان کا اپنا عقیدہ ہوتا ہے اور میں نے کبھی اپنے عقیدے کو کسی پر مسلط نہیں کیا۔ میں تمہیں اس لیے مدد فراہم کرتی ہوں کیونکہ انسانیت میرا مذہب ہے۔”

بشری بی بی کی یہ بات سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے احساس ہوا کہ انسانیت اور خدمت سب سے بڑا مذہب ہے۔ میں نے بشری بی بی کو گلے لگایا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس دن کے بعد میں نے کبھی ان کے عقیدے پر سوال نہیں اٹھایا بلکہ ان کی مہربانی اور انسانیت کی قدر کی۔”