شوگر کی دو بنیادی اقسام ہیں آج ان کے لاحق ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہیں
شوگر ٹائپ 1 کی تشخیص عموما عمر کے اوائل سالوں میں یا ٹین ایج میں ہوتی ہے
شوگر ٹائپ 2 کے مریض انسولین سے بچ سکتے ہیں یہاں تک کہ سخت پرہیز سے دوا سے بھی بہت حد تک جان چھڑوا سکتے ہیں
روزانہ واک ایکسرسائز کریں
صاف ستھرا کھائیں
شوگر کی دو بنیادی اقسام ہیں آج ان کے لاحق ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہیں
شوگر کی پہلی قسم جسے ٹائپ 1 کہتے ہیں اس میں انسانی لبلبہ کچھ وجوہات کی بنا پر قدرتی انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے۔
یہ وجوہات درج ذیل ہیں
1۔ جسم کا خود کار مدافعتی نظام ان خلیوں کو بیرونی چیز سمجھ کر ختم کرنے لگتا ہے جو قدرتی انسولین پیدا کرتے ہیں۔ اسے آٹو امیون بیماری کہتے ہیں
2۔ نامعلوم جینیاتی تبدیلیاں پیدا ہوتے بچوں میں شوگر کی وجہ بنتی ہیں
3۔ کسی حادثے یا سرجری سے لبلبہ کو نقصان پہنچنے سے لبلبہ انسولین پیدا کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے
شوگر ٹائپ 1 کی تشخیص عموما عمر کے اوائل سالوں میں یا ٹین ایج میں ہوتی ہے
لیکن یہ عمر کے کسی بھی حصے میں کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے
شوگر ٹائپ 1 کے لاحق ہونے کا بری غذائی عادات ، سست طرز زندگی سے کوئی تعلق نہیں ۔ پاکستان میں شوگر کے مریضوں میں 10 فیصد مریضوں کا تعلق شوگر ٹائپ 1 سے ہے۔
شوگر کی اس قسم میں مریض کو بیرونی طور پر انسولین دینا لازم و ملزوم ہوتا ہے
شوگر ٹائپ 2 خراب طرز زندگی سے جنم لینے والی بیماری ہے
اس کے علاوہ
تھائی رائیڈ
پولی سسٹک اووریز
انسولین مزاحمت کے مریض میں شوگر لاحق ہونے کے خطرات بہت زیادہ ہوتے ہیں
مریض کا لبلبہ انسولین بنا رہا ہوتا ہے جو جسمانی ضرورت سے کم ہوتی ہے یا اکثر مریضوں میں لبلبہ انسولین وافر مقدار میں بناتا ہے لیکن جسمانی خلیے اس کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں
انسولین کے جذب کو بہتر کر کے شوگر ٹائپ کو لاحق ہونے سے روکا جا سکتا ہے
اگر آپ شوگر ٹائپ 2 میں مبتلا ہیں تو واک ایکسرسائز اور اچھی غذائی عادات کو اپنا کر آپ شوگر پر مکمل کنٹرول حاصل کر سکتے ہیں
پاکستان میں %90 مریض شوگر ٹائپ 2 کے ہیں جس کا واضح مطلب عوام کی غذائی عادات اور لائف سٹائل میں خرابی ہے